ڈپٹی نذیر احمد

تعارف:


نذیر احمد نام والد کا نام سعادت علی 6 دسمبر 1836 ء کو نگینہ ضلع بجنور میں پیدا ہوئے ۔ عربی فارسی اپنے والد سے پڑھی۔ دہلی کالج میں داخل ہوئے اور فارغ التحصیل ہو کے نکلے سرکاری ملازم ہوئے اور برابر ترقی کرتے رہے۔ تعزیرات ہند انکم ٹیکس کا اردو میں ترجمہ کیا اور اس کے صلہ میں تحصیلداری ملی پھر قانون شہادت اور ضابطہ فوجداری کا ترجمہ کیا اور حکومت نے ان کو ڈپٹی کلکٹر بنادیا۔ 1877ء میں نظام حیدرآباد کی سرکار میں ایک بلند درجہ پر فائز ہوئے اور وہیں سے اپنے کارہائے منصبی کو عرصہ تک انجام دینے کے بعد سبکدوش ہوئے دہلی میں قیام کیا اور اپنی بقیہ زندگی تصنیف و تالیف میں گزار دی۔ یہیں 1912ء میں انتقال ہوا۔

تصانیف:

نذیر احمد نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں جن میں مذہبی بھی ہیں اور اخلاقی بھی ناول نگاری کی بنیاد ڈالی اور اردو کے پہلے ناول نگار کہے جاتے ہیں ان کے ناول اخلاقی اور اصلاحی ہیں وہ تفریح ناول نہیں لکھتے تھے۔ مراۃ العروس، بنات النعش،توبتہ النصوح، ابن الوقت، فسانۂ مبتلا اور روئے صادقہ ان کی بہترین تصانیف ہیں انہوں نے تفریح لٹریچر پیدا کرنا پسند نہیں کیا بلکہ ٹھوس اور مقصدی کتابیں لکھی ہیں انہوں نے کلام پاک کا ترجمہ بھی کیا۔ انڈین پینل کوڈ کو تعزیرات ہند کے نام سے اردو میں منتقل کیا۔

شخصیت:

نذیر احمد نے اپنے لئے خود زمین تیار کی تھی تعلیم حاصل کی اعلی درجہ کی نوکری ملی روپیہ پیسہ سے اطمینان رہا اور ایک بلند مرتبہ ادیب ہوئے یہ سب ان کی ذاتی کوششوں اور محنتوں کا پھل ہے۔ ان کی ابتدائی زندگی بڑی غربت اور عسرت کی زندگی تھی مگر وہ مصیبتوں اور تکلیفوں سے برابر برسر پیکار رہے اور اپنے لئے ایک الگ مستقل جگہ پیدا کر لی ادبی خدمت کے صلے میں ان کو 1897ء میں شمس العلماء کا خطاب ملا۔ 1902ء میں ایڈنبرا یونیورٹی نے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی مولانا نذیر احمد سرسید کے ساتھیوں اور ہمدردوں میں تھے

بحیثیت نثرنگار:

نذیر احمد اردو نثر نگاری کے ابوافضل ہیں وہ دہلی کے نہیں تھے لیکن دہلی کی ٹکسالی زبان پر عبور رکھتے تھے ان کی نثر نگاری میں ظرافت اور شوخی بھری ہوئی ہے۔ نذیر احمد عربی فارسی کے استاد کامل تھے اس لئے ان کی اردو نثر میں عربی فارسی کے مشکل اور نامانوس الفاظ بھی آ جاتے جو کانوں کو نئے اور اجنبی معلوم پڑتے ہیں ۔ ضرب الامثال کی کثرت کبھی کبھی کھٹکنے لگتی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی نثر عربی فارسی کے بوجھل اور مشکل الفاظ کے باوجود بھی نمایاں درجہ رکھتی ہے۔ بعض لوگوں کو مرزا نوشہ یعنی غالب صاحب کی طرح نزیر کی بھی مشکل پسندی کا پِٹنا ہے اور وہ پیوند کاریاں جو ان کے شستہ و رفتہ اور برجستہ اردو میں ہوتی رہتی ہیں جس میں انگریزی زیادہ بے جوڑ معلوم ہوتی ہے۔ عام خیال ہے کہ ثقل سے خالی نہیں ہے لیکن انصاف یہ ہے کہ سب کی جدت اور اختراع اور قوت آخذه کا زور ہے۔ آمد کی رو میں اضطراری طور پر اپنے پرائے کی تفریق نہیں ہو سکتی یہی وجہ ہے کہ بعض حصے بہ لحاظ ترکیب و تحلیل اجزاۓ السنہ غیر گنگا جمنا ہوتے ہیں۔
تاہم متنات اور حسن کلام سے بھی علیحدہ نہیں ہوتے نہ ان کو اچھوتے اور مستقل اسٹائل پر کوئی اثر پڑتا ہے جو شاہراہ عام سے بعید اور آپ اپنی ہی نظیر ہے جو باتیں اوروں کے یہاں بیگانی ہیں ان کی بے ساختگی اور برجستگی خیال کے ساتھ سلسلہ بیان میں اس طرح جذب ہو جاتی ہے مغایرت یا اجنبیت کا احساس تک نہیں ہوتا ۔

نذیر احمد کی سب سے اہمیت یہ ہے کہ وہ اردو کے پہلے ناول نگار ہیں ان کے اہم ناولوں کے نام اوپر دیئے جا چکے ہیں یہ معاشرتی اور اصلاحی ناول ہیں انہیں ایک خاص مقصد کے تحت لکھا گیا ہے ان سے پہلے اردو میں داستانیں ملتی تھیں جن میں خیالی اور ناممکن باتوں کو بیان کیا جاتا تھا لیکن نذیر احمد نے اصل زندگی کو اپنا موضوع بنادیا اور ان کے گردوپیش جو کچھ موجود تھا اسی کو ناولوں میں جگہ دی

مقصدیت سے نذیر کے ناولوں کو نقصان پہنچا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ناول بہت عمدہ چل رہا ہے لیکن موقع پا کر مولوی صاحب وعظ کہنا شروع کردیتے ہیں گویا انہوں نے ناولوں سے تبلیغ کا کام کیا نذیر احمد کے کرداروں میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ یا تو ان میں صرف اچھائیاں پائی جاتی ہیں یا صرف برائیاں حالانکہ انسان اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ ہے۔ سرور نے لکھا ہے کہ نذیر احمد کے کردار یا فرشتے ہوتے ہیں یا پھر شیطان، انسان ان کے یہاں نہیں ملتے وہ کسی کردار کو صرف کالے رنگ سے بناتے ہیں یعنی بالکل برایا صرف سفید رنگ سے تیار کرتے ہیں یعنی بے عیب جب کہ حقیقت ہمیشہ چتکبری ہوتی ہے دوسری بات یہ کہ وہ کرداروں کے ایسے نام رکھتے ہیں جن سے ان کا اچھا یا برا ہونا پہلے سے معلوم ہوتا ہے مثلا ظاہردار بیگ جس میں صرف بناوٹ اور ظاہر داری ہے ابن الوقت جو موقع پرست ہے فہمیدہ جو ہوشیار ہے اور نصوح جو نصیحتیں کرتا ہے لیکن نذیر احمد اردو میں ناول کی شروعات کر رہے تھے اس لئے اگر ان ناولوں میں کچھ خامیاں پائی جاتی ہیں تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں نہ اس سے ان کا رتبہ کم ہوتا ہے۔

مولوی صاحب کو زبان پر بڑی قدرت حاصل تھی وہ عربی فارسی کے الفاظ بہت استعمال کرتے ہیں ان کی عبارت میں بہت زور پایا جاتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی کوہستانی ندی بڑے زور و شور سے بہہ رہی ہے انہیں محاوروں کے استعمال کا بہت شوق ہے کہیں کہیں محاوروں کی بھرمار ناگوار ہوتی ہے۔ نذیر احمد کے یہاں طنزوظرافت کے بھی بعض اچھے نمونے ملتے ہیں مگر بہت کم بالعموم ان کی تحریروں پر سنجیدگی چھائی رہتی ہے۔
ان کے خطوط، لیکچرز اور مضامین بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے