حالات زندگی:
شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد 1830ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی باقر علی جنہوں نے شمالی ہند میں مضمون نویسی میں بڑی شہرت حاصل کی تھی زون کے دوست تھے۔ اسی وجہ سے آزاد کی ابتدائی تعلیم استاد ذوق کے سایۂ عاطفت میں ہوئی ۔ انہی کی بابرکت
محبت میں انہوں نے شعر گوئی اور فن عروض سیکھا۔ آزاد پرانے دلی کالج کے تعلیم یافتہ تھے جس سے مولوی نذیر احمد مولوی ذکاء الله ماسٹر پیارے لال آشوب ایسے لائق اور ہونہار لوگ پڑھ کر استاد ذوق کے ساتھ یہ بڑے بڑے مشاعروں میں شریک ہوتے اور بڑے بڑے شعراء سے روشناس ہوتے تھے اور انہیں ادبی سرچشموں سے ان کا ذوق تن سیراب ہوتا تھا۔
جنگ آزادی 1857ء کی مصیبتوں کے بعد آزاد اپنے وطن سے نکل کھڑے ہوئے اور سرگرداں پھرتے ہوئے لکھنو پہنچے۔ ان کے والد کا انتقال جنگ آزادی کے دوران ہو چکا تھا، استاد کا کلام اور کچھ خود ان کا کلام جو پہلے کا تھا جنگ آزادی میں ضائع ہو گیا تھا۔ ہنگامہ جنگ آزادی فرو ہونے کے بعد آزاد نے کسب معاش کے مختلف ذرائع اختیار کئے۔ کچھ دنوں تک ایک فوجی سکول میں ماسٹر رہے مگر چند دنوں کے بعد اس کام کو چھوڑ دیا۔ آخر کار پھرتے پھراتے 1864ء میں لاہور پہنچے اور مولوی رجب علی کے ذریعے سے پنڈت من پھول لیفٹیننٹ گورنر کے میرمنشی سے ملے جن کی سفارش سے سرشتہ تعلیم کے محکمہ میں پندرہ روپیہ ماہوار کے ملازم ہو گئے۔ چھوٹے عہدے کی وجہ سے اتنا موقع نہیں ملتا تھا کہ بڑے بڑے افسران سرکاری سے ملیں جو ان کی لیاقت اور قابلیت کا لحاظ اور قدر کر کے ان کو کسی اعلی عہدے پر پہنچائیں ۔ اتفاق سے ماسٹر پیارے لال آشوب کے ذریعے سے جو ان کے بہی خواہ اور دوست تھے میجر فلر صاحب ڈائر یکٹر سرشت، تعلیم تک رسائی ہوگی جو علوم و السنہ مشرقیہ سے کمال ذوق رکھتے تھے اور رسائی کی صورت یہ ہوئی کہ میجر صاحب نے لفظ ایجاد کو مؤنث لکھا تھا جس کی نسبت تذکیر و تانیث کا کچھ شبہ تھا ماسٹر پیارے لال نے آزاد کو بلایا اور ان سے اس کی بابت دریافت کیا گیا۔
ایجاد کو مذکر کہا اور جب سند مانگی کی تو انہوں نے سودا کا شعر پڑھا۔
اس وقت سے میجر صاحب کی خدمت میں ان کی رسائی ہو گئی اور کچھ ترقی بھی ہوگئی۔ سب سے پہلے یہ اردو فارسی کی درسی کتابیں لکھنے پر مامور ہوئے چنانچہ فارسی کی پہلی اور دوسری کتاب اردو کی پہلی دوسری اور تیسری اور قصص ہند اس زمانے کی ان کی مشہور تصانیف ہیں جو مبتدیوں میں نہایت مقبول ہوئیں اور انکی تصانیف کی بدولت پنجاب میں سکولی تعلیم بہت رائج ہوئی۔
آزاد کو یہ بھی فخر حاصل ہے کہ انہوں نے انجمن پنجاب کے قیام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی وجہ سے صوبہ پنجاب میں اردو کی ترقی اور ترویج ہوئی۔ جب میجر فلر کے بعد کرنل ہالرائڈ ڈائر یکٹر تعلیم مقرر ہوئے جن کو زبان اردو کا محسن سمجھنا بالکل بجا ہے تو 1874ء میں آزاد نے کرنل صاحب موصوف کو اس بات پر آمادہ کیا کہ امن پنجاب کی سر پستی میں ایک خاص مشاعرہ قائم کیا جائے جس کی غرض یہ ہو کہ اردو شاعری کی مبالغہ آمیز اور پرتصنع روش بدل جائے اور اس میں حقیقت اور اصلیت کی روح پیدا کی جائے۔
1865ء میں آزاد کسی سرکاری کام سے کلکتہ اور پنڈت من پھول کی معیت میں ایک سفارتی مشن پر کابل و بخارا گئے تھے۔ ایران وہ دو مرتبہ گئے پہلی مرتبہ 1865ء میں اور دوسری مرتبه 1883ء میں ۔ زبان قاری سے ان کو ایک خاص لگاؤ تھا اور اسی وجہ سے اس کا مطالعہ انہوں نے خاص طور پر کیا تھا اور ایران کے قیام نے ان کو جدید فارسی سے بھی آشنا کر دیا تھا۔انہی وجوہ سے ان کی وہ تصانیف جو زبان فارسی کے متعلق ہیں دلچسپی اور معلومات سے پر ہیں۔
کرنل ہالرائڈ نے آزاد کو "اتالیق پنجاب (ایک سرکاری اخبار) کا سب ایڈیٹر بہ مشاہره 75 روپے ماہوار مقرر کیا تھا اور ایڈیٹر رائے بہادر پیارے لال آشوب تھے۔ جب تھوڑے عرصے کے بعد یہ اخبار بند ہو گیا اور "پنجاب میگزین” اس کی جگہ نکلا تو آزاد اس کے بھی سب ایڈیٹر مقرر ہوئے اور ان کے بعد مولانا حالی کچھ دنوں اس عہدے پر متعین رہے۔ آزاد گورنمنٹ کالج لاہور او اور میں عربی اور فارسی کے پروفیسر بھی ہو گئے تھے۔
1887ء میں ملکہ وکٹوریہ کے جوبلی کے موقع پر ان کی قابلیت کے صلے میں ان کو شمس العلماء کا خطاب عطا ہوا۔ دماغی محنت اور سفر ایران کی تکان اور اپنی پیاری بیٹی کی بے وقت موت کی وجہ سے جن کو وہ بہت عزیز رکھتے تھے اور جن کو نہایت عمدہ تعلیم دلائی تھی ان کے قوائے دماغی پر بہت برا اثر پڑا جس کی وجہ سے 1889ء میں کچھ جنون کے آثار معلوم ہونے لگے جس سے وہ کسی ادبی کام کے لائق نہیں رہے۔ آخر عمر تک یہی حالت جنون کی رہی اور 22 جنوری 1910ء کو اس جہان فانی سے رحلت کی۔
تصانیف:
- فارسی ریڈریں
- قصص ہند
- جامع القواعد
- نئی اردو ریڈریں
- آب حیات
- نیرنگ خیال
- سخن دان فارسی
- قند پارسی
- نصیحت کا کرن پھول
- دیوان ذوق
- دربار اکبری
- نظم آزاد
- نگارستان فارس
- سپاک و نماک
- جانورستان