رپورتاژ فرانسیسی لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی ر پورٹ
ہی کے ہیں۔ اصطلاحی معنوں میں ر پورتاژ چشم دید حالات و واقعات کی وہ رپورٹ ہے جو اگرچہ معروضی واقعات پر ہی مشتمل ہوتی ہے لیکن مصنف کا تخیل اور واقعات کے بارے میں اس کا موضوعی رویہ ان واقعات میں ایک بصیرت افروز معنویت اور ایک فکر انگیز فضا پیدا کر دیتا ہے۔ محمد حسن عسکری نے رپورتاژ کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا خلاصہ لگ بھگ انہی کے الفاظ میں یہ ہے کہ ”۳۰ء کے قریب یورپ می سیاست اور معیشت کے ہنگامی مسائل نے ابدی مسائل سے زیادہ اہمیت حاصل کر لی تھی ۔ افراط زر، ہٹلر اور مسولینی کے ہلاکت خیز ارادے اور 36ء میں میں سپین کی خانہ جنگی جیسے مسائل نے ادیبوں کو قوت اور ہنگامی مسائل سے اعتنا کرنے پر مجبور کر دیا لیکن یہ ممکن نہ تھا کہ کسی وقتی مسئلے پر بڑا ناول یا بڑی نظم لکھی جا سکے اور یہ بھی ممکن نہ تھا کہ ادیب بڑے ادب کی تخلیق میں رہیں اور روزمرہ سیاسی اور معاشی مسائل پر نہ لکھیں یعنی ادیب کے لیے ہنگامی مسائل پر لکھنا بھی لازمی تھا اور اپنی تحریروں کو ادب بھی بناتا تھا تاکہ ان کی کوشش محض صحافت نہ بن جائے ان دو رجحانات کی کشمکش یا ٹکر سے رپورتاژ کی صنف وجود میں آئی۔
رپورتاژ لکھنے والوں نے صاف قبول کر لیا ہے کہ ہم ادب تخلیق نہیں کر رہے بلکہ اپنے مشاہدات سنا رہے ہیں۔ چنانچہ رپورتاژ ادب کی کوئی باقاعدہ صنف نہیں البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی رپورتاژ انفرادی طور پر ادب کا درجہ حاصل کر لے۔ رپورتاژ زمانہ حال میں محدود ہے، اسے ماضی یا مستقبل سے کوئی تعلق نہیں ۔ پورتاژ میں تخیل ایجاد و اختراع کے لیے نہیں بلکہ واقعات کی ترتیب و تدوین یا تفسیر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ رپورتاژ ایک اخبار نویس کی رپورٹ سے ان معنوں میں مختلف ہے کہ اخبار نویسں کا اصل کام واقعات بیان کرنا ہے ۔ ان کی تشریح و توضیح کرنا نہیں لیکن رپورتاژ میں واقعات کی معنویت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ بلکہ رپورتاژ لکھی ہی اس لیے جاتی ہے کہ جو واقعات آدی سے مشاہدے میں آئے ہیں ان میں سے کوئی سماجی یا انسانی معنویت نظر آئی ہے۔ چنانچہ رپورتاژ میں اصلی چیز واقعات نہیں ہیں بلکہ وہ معنی ہیں جو لکھنے والے نے واقعات میں دیکھے۔ واقعات تو اس معنویت کو قارئین تک منتقل کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ رپورتاژ نہ تو پوری طرح صحافت نگاری ہے نہ خالص ادب۔
ڈاکٹر اعجاز حسین لکھتے ہیں کہ رپورتاژ لکھنے والے ادیب کو ذاتی مشاہدہ کے علاوہ ایک واضح سیاسی اور سماجی نقطہ نظر مورخ کاقلم، ادیب کا دماغ اور مصور کی نظر بھی درکار ہے۔ ان کے خیال میں کرشن چندر کے رپورتاژ "پودے” میں کم و بیش وہ تمام خصوصیات ملتی ہیں جو ایک کامیاب رپورتاژ میں سوچی جا سکتی ہیں۔
عام طور پر مسلم ہے کہ اردو کا پہلا رپورتاژ "پودے ” ہی ہے جو 1945ء میں حیدرآباد میں منعقد ہونے والی ادیبوں کی کل ہند کانفرنس کے بارے میں ہے۔ لیکن مجتبی حسین نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے۔
” اردو میں پودے نہیں( بلکہ سجاد ظہیر کا) یادیں“غالا سب سے پہلا رپورتاژ ہے۔”
یہ رپورتاژ انجمن ترقی پسند مصنفین کی لکھنؤ کانفرنس کے
بارے میں ہے۔ ان رپورتاژوں کے علاوہ شاہد احمد دہلوی کا
رپورتاژ "دلی کی بپتا ” ، محمود ہاشمی کا رپورتاژ ” کشمیر اداس ہے ” ممتاز مفتی کا سفر حج کا پورتاژ ” لبیک ” ، مسعود مفتی کا "چہرے ” اور منو بھائی کا رپورتاژ "میں نے کچھ پھول چنے ” ادبی حلقوں سے خراج تحسین وصول کر چکے ہیں۔
2021-07-30