سادگی
سرسید نے جو زبان استعمال کی وہ بھی بڑی سادہ اور سلیس تھی ۔ وہ حتی المقدور عبارت کی سادگی پر زور دیتے۔ خود بھی اس روش کو اپناتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اسی طرز پر چلنے کی تلقین کرتے۔ اور سرسید کے سلسلے میں اکثر اوقات ایسا ہوا بھی مگر سرسید اس بات سے بہت بلند تھے کہ ان کی تحریر میں حسن پیدا ہوتا ہے یا نہیں انہیں تو صرف اپنی بات کہنے سے غرض ہوتی تھی اور وو اپنی بات کو کسی نہ کسی طریقے سے کہہ ڈالتے تھے۔ اس سلسلہ میں مولانا حالی نے انہیں ایسے آدمی سے تشبیہ دی ہے کہ جس کے گھر کو آگ لگی ہوئی ہو اور وہ حالت اضطراب اور پریشانی میں لوگوں کو اپنی مدد کے لئے پکار رہا ہو۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں انسان تشبیہ و استعارات کے بجائے سیدھے سادے انداز میں اپنی مصیبت کا رونا روئے گا اور لوگوں کو اپنی مدد پر آمادہ کرے گا۔
سرسید کی اسی سادگی تحریر کا ایجاز ہے کہ اردو زبان دقیق علمی اور فلسفیانہ مطالب کو ادا کرنے پر بھی قادر ہوگئی اور کچھ ہی عرصے میں اس بے مایہ زبان کا دامن مالا مال ہو گیا۔
مقصدیت
سرسید نے جو کچھ لکھا، کسی نہ کسی اصلاحی مقصد کے تحت لکھا۔ اس لئے انہوں نے عبارت آرائی اور حسن بیان کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ مدعا نگاری اور مواد کی طرف ان کا خیال زیادہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں مقصد کی اہمیت زیادہ ہے۔ وہ جو کچھ لکھتے ہیں اس کے معانی کو دوسرے کے دل تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
انگریزی زبان کے اثرات
سرسید احمد خاں انگریزی تہذیب و تمدن کے داعی تھے انگریزی تعلیم کے حصول پر انہوں نے بروقت اور مناسب انداز میں زور دیا اور قدیم لوگوں کے ان خیالات کو باطل کر دکھایا کہ انگریزی زبان سیکھ لینے سے انسان کے مذہب پر اچھے اثرات نہیں پڑتے۔ اگرچہ سرسید نے جدید تہذیب کے اپنانے میں قدرے غلو سے بھی کام لیا مگر اس کے اثرات اردو زبان و ادب پر بہت اچھے پڑے۔ ایک طرف تو انگریزی ادب اور علوم ترجمہ ہو کر لوگوں کے سامنے آنا شروع ہوئے تو دوسری طرف زبان کو وسعت نصیب ہوئی ۔
سرسید اور ان کے رفقاء نے انگریزی الفاظ کو بڑی بے تکلفی کے ساتھ اردو زبان میں استمال کرنا شروع کیا۔ اگرچہ بعض اوقات انگریزی اور اردو الفاظ بالکل بے جوڑ ثابت ہوتے مگر اردو اور انگریزی میں جو بعد اور دوری خیال کی جاتی تھی وہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوئی ۔ سرسید اپنی تحریروں میں اکثر بے جا انگریزی الفاظ بھی استعمال کر جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ناگواری کا سا احساس ضرور ہوتا ہے مگر سرسید کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ بعض اوقات ایسے الفاظ کا استعمال بھی نامانوس اور بے محل محسوس ہوتا ہے جن کے اردو مترادفات موجود ہیں اور انگریزی کی بجائے اگر اردو مترادف کو استعمال کیا جاتا تو زیادہ خوبصورتی کا باعث بنتا لیکن سرسید احمد خاں کی مجبوری یہ تھی کہ وہ انگریزی کی ترویج سے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان موجود نفرت و حقارت کی خلیج کو پر کرنا چاہتے تھے۔
قدرت بیان
علمی مضامین کو بیان کرنے کے لئے جو انداز اختیار کیا جاتا ہے وہ عموما مشکل ہوتا ہے کیونکہ پیچیدہ علمی مسائل کے لئے استعال ہونے والی زبان اصطلاحوں کی وجہ سے دشوار اور خشک ہ جاتی ہے مگر سرسید کی انشاء کا بڑا کمال یہ ہے کہ وہ علمی مسائل کو بھی محض اپنی قدرت بیان کی وجہ سے عام فہم اور سادہ انداز میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔
بے تکلفی/ بے ساختگی
سر سید کے جس وصف کو حالی نے ” بے ساختگی” کے نام سے یاد کیا ہے وہ حالی اور شبلی کی بے ساختگی نہیں بلکہ ان معنوں میں ہے کہ وہ لکھتے ہوئے زبان و بیان کے قواعد کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ انگریزی الفات کثرت
سرسید کے انداز تحریر میں بے ساختگی اور بے تکلفی انتہا درجہ کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عبارت آرائی اور تکلف و تصنع سے نفرت کرتے تھے۔ اس کی بجائے ان کا سارا زور مطلب کی ادائیگی پر ہوتا تھا۔ ان کے نزدیک بات کہہ دینا زیادہ اہم تھا بجائے اس کے کہ یہ دیکھا جائے ہہ بات کہنے کا انداز کیا ہو۔ اس قسم کی صورت حال میں ادیب مشکل الفاظ و تراکیب ،مصنوئی عبارات اور تکلف و تصنع کی طرف دھیان نہیں دیتا بلکہ جو کہنا چاہتا ہے مناسب پیرائے میں کہہ ڈالتا ہے۔ سرسید احمد خاں بھی مشکل الفاظ سے گریز کرتے ہیں اور عبارات آرائی کی بجائے سیدھے سادے رواں انداز میں اپنی بات کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وہ اسلوب ہے جسے فطری اسلوب کا نام بھی دیا جا تا ہے۔ اس اسلوب کی شان یہ ہے کہ جس طرح سے ادیب کے ذہن میں کوئی بات آئی اسے بے تکلف انداز میں کہہ دیا۔ وہ خود عبارت آرائی کے خلاف تھے اس لئے کہ اس قسم کی تحریر میں مصنوئی پن آ جاتا ہے اور وہ مقصد جس کے لئے کچھ لکھا جا رہا ہے پس پردہ چلا جاتا ہے اور ایک اعتبار سے دیکھیں تو یہ بے تکلفی اور سادگی و برجستگی بھی اپنی جبکہ حسن و خوبی کے ہزار پہلو رکھتی ہے چنانچہ اسی سادگی و بے تکلفی نے ان کے اسلوب میں سچائی اور خلوص کا عنصر پیدا کیا اور یہی خلوص و سچائی لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئی اور انہوں نے سرسید کی ہم نوائی اور راہنمائی میں ترقی کی طرف قدم بڑھایا۔ اردو ادب اور زبان آج جس بلندی اور وسعت سے سرشار ہیں وہ سب سرسید کی مساعی کا نتیجہ ہے۔
طویل جملے
سر سید کی تحریروں میں اضطراری کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اپنے مقصد سے گہرا لگاؤ ہے۔ وہ اسی اضطراری کیفیت میں قلم برداشتہ لکھتے چلے جاتے ہیں جس کی بناء پر جملے طویل ہو جاتے ہیں، لہجے میں تندی اور انداز درشتی آ جاتی ہے۔
ظرافت
سرسید نے مضمون نگاری کا خوبصورت معیار قائم کیا ہے اور ان کی تحریروں میں کہیں کہیں ظرافت اور مزاح بھی پایا جاتا ہے ۔ بعض اوقات یہ مزاح طنز کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور اپنے مخالفین کے بارے میں ان کا انداز طنزیہ ہو جاتا ہے۔
سرسید کی تحریریں سنجیدہ ہوتی ہیں ان کا انداز بیان اگرچہ عام فہم ہے اور زبان بھی بڑی سادہ استعمال کرتے ہیں مگر موضوع کی سنجیدگی اور تحریر کی متانت سے شگفتگی پیدا نہیں ہوتی۔
سر سید عام فہم اور بول چال کے انداز میں لکھنے کے شوق میں اکثر اوقات بڑی بھدی ترکیبیں استعمال کر جاتے ہیں جن کے عامیانہ پن کی وجہ سے ذوق سلیم گرانی محسوس کرتا ہے۔
مصلحانہ انداز
ایک ادیب کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ادب کے تقاضوں کو ہر وقت نظر میں رکھے اور ادیب پہلے ہو اور مصلح بعد میں مگر سرسید مصلح پہلے ہیں اور ادیب بعد میں!
اخلاق کی اصلاح اور معاشرتی رسوم و رواج میں انقلاب برپا کرنے کے لئے کھلی ترغیب سے کام لیتے ہیں جس کی بناء پر وہ مصلحانہ تلقین پر اتر آتے ہیں اور ان کا بیان وعظ معلوم ہوتا ہے۔ ان کی تحریروں میں ان کا مصلحانہ انداز بہت نمایاں ہے۔
منطقی اور استدلالی انداز
سر سید جو بات بھی کرتے ہیں اسے منوانے اور درست ثابت کرنے کے لئے استدلال سے کام لیتے ہیں ۔ ذہنی اعتبار سے وہ ایک منطقی اور استدلالی ذہن کے مالک تھے۔ ان کی کوئی بات بغیر دلیل کے نہ ہوتی تھی اور پھر ان کے دلائل باوزن ٹھوس اور حقیقی ہوتے کہ ان کے مخالفین کو بھی قائل ہونا پڑتا اور وہ بھی ان کی رائے سے متفق ہونے پر مجبور ہو جاتے۔ ان کے اسلوب میں یہ انداز اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی موضوع پر وہ منطقی انداز میں پہلے اس کے حق میں دلائل دیتے ہیں اور پھر اس کے مخالف دلائل بھی خود ہی لاتے ہیں اور پھر مضبوطی کے ساتھ اپنا نقطہ نظر واضح کرتے چلے جاتے ہیں ۔
سرسید ایک وسیع المطالعہ اور گہرے مشاہدے والے انسان تھے ۔ عقلی اور استدلالی انداز ایک اعتبار سے ان کے زمانے کی ایک ضرورت بھی تھی۔ سرسید نے اپنے مضامین کی بنیاد استدلال پر رکھی کیونکہ یہ زمانہ سائنسی علوم کی ترویج و اشاعت کا زمانہ تھا اور سائنس بغیر دلیل کے کسی دعوے کو تسلیم نہیں کرتی۔ اس انداز تحریر کا فائدہ یہ ہوا کہ عام لوگ بھی اپنی بات دلائل کے دلائل کے ساتھ کرنے لگے اور بالواسطہ طور پر اردو زبان کی ترویج کے مواقع پیدا ہوئے۔ سائنسی اور فلسفیانہ مضامین کے ترجمے ہونے شروع ہوئے اور عام لوگ بھی ان علوم سے واقفیت حاصل کرنے لگے۔
مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرسید کا اسلوب سادگی، مقصدیت، منطقیت ،اور بے ساختگی کا ایک اعلی نمونہ ہے۔ وہ پہلے اردو نثر نگار ہیں جو انگریزی زبان و بیان سے متاثر ہیں اور اسی کی تقلید میں انہوں نے برصغیر میں اسلامی تحریک شروع کی جو جدید نسل کی کایا پلٹنے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے زبان و بیان کے اعتبار سے ہی اردو ادب کو متاثر نہیں کیا بلکہ اسے موضوعات کے تنوع سے بھی روشناس کرایا ہے۔