تعارف:
اصطلاحی معنی کے اعتبار سے مختصر افسانہ انگریزی لفظ شارٹ سٹوری کا اردو ترجمہ ہے ۔ افسانہ کا لفظ بھی بالعموم مختصر افسانے ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سہیل بخاری نے
مختصر افسانے کے لیے افسانچے کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔
مختصر افسانہ سے مراد نثر میں ایک چھوٹی سی کہانی ہے جس میں زندگی کے کسی ایک پہلو کو نمایاں کیا گیا ہو ۔
مغرب میں ایڈ کر امین کو مختصر افسانے کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ مختصر افسانے کی کوئی جامع و مانع تعریف ممکن نہیں ۔ کہا جاتا ہے ک مختصر افسانہ وہ کہانی ہے جسے ایک نشست میں پڑھا جا سکے یا جس کے مطالعے میں زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے صرف ہوں۔ اس قسم کی سرسری باتیں مختصر افسانے کے حدود و شراط کا تصور دلانے سے قاصر ہیں۔ تاہم چند باتیں ایسی ہیں جو مختصر افسانے کو عام کہانی سے ممیز کر کے اس کے خط و خال کو نمایاں کر سکتی ہیں۔
موضوع:
ناول نگار کی طرح افسانہ نگار کا موضوع بھی زندگی ہے لیکن اپنی وسعتوں اور پیچیدگیوں سمیت نہیں بلکہ زندگی کا صرف ایک حصہ ۔ کوئی شخص، کوئی واقعہ، کوئی تجربہ، کوئی خیال، کوئی تنہا بصیرت افسانے
کا موضوع بنتی ہے۔ بالفاظ دیگر افسانہ ( ناول کے برعکس) زندگی کے صرف ایک پہلو کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ پوری زندگی کی بجائے صرف ایک گوشے کی جھلک دکھاتا ہے۔
وحدت تاثر:
افسانہ نگاری کے اجزائے ترکیبی:
۱۔ پلاٹ
پلاٹ افسانہ کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ افسانے میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اس میں ترتیب کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے اسی سے افسانہ پروان چڑھتا ہے اس لیے اس حصے کو پلاٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ واقعات ترتیب سے تیار کیے جاتے ہیں۔ جس سے افسانہ نگار ادھر ادھر جانے سے بچا رہتا ہے۔ اس کا ذہن صرف مرکزی خیال پر ہی ٹھہرا رہتا ہے۔ غیر اہم وضاحات افسانے کی بڑھوتری میں رکاوٹ تو نہیں ڈالتی اور افسانہ منطقی ترتیب سے پروان چڑھتے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ سادہ اور غیر پچیدہ پلاٹ قاری کو الجھنے سے بجائے رکھتا ہے۔ اور قاری آرام سے افسانہ نگار کے ساتھ جما رہتا ہے۔
افسانے کا پلاٹ سادہ بھی ہو سکتا ہے اور پچیدہ بھی۔ سادہ پلاٹ واقعات کی شروعات، درمیان اور آخیر کا منطقی تسلسل قائم رکھتا ہے۔ اور پچیدہ پلاٹ سے افسانے کے واقعات اور کردار داخلی اور خارجی تصادم سے ٹکرتے ہیں۔ اس سے افسانے میں الجھن پیدا ہو جاتی ہے۔ اور قصہ قاری کی توقع پر ختم نہیں ہوتا۔ یہی کمال فن ہے۔
۲۔ کردار
افسانے میں حالات و واقعات کی معنویت ان اشخاص سے تشکیل پاتی ہے جو کہانی میں کرداروں کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ جو کردار افسانے میں انجام دیتے ہیں وہ ہماری روزمرہ زندگی سے گہری مشابہت رکھتا ہیں۔ چونکہ واقعات کرداروں کی وجہ سے تشکیل پاتے ہیں اس لیے افسانے میں کردار نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
افسانہ نگاری میں کردار دو قسم کے ہوتے ہیں یعنی جامد اور غیر جامد کردار۔ جامد کردار ابتدا سے آخر تک ایک جیسے رہتے ہیں۔ ہمیشہ ایسا ہونا انسانی فطرت میں نہیں ہے۔ یہ سراسر خلاف فطرت ہے۔ غیر جامد کردار وہ ہوتا ہے جو حالات کے مطابق تبدیل ہو جاتا ہے۔ کردار کو صرف خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ نہیں ہونا چاہیے۔ وہی کرار کامیاب ہوتا ہے جو اصلی انسانوں جیسا ہو۔ ایک کامیاب افسانہ نگار کو نفسیات انسانی کا ماہر ہونا چاہیے تب وہ اچھا افسانہ لکھ سکے گا۔
۳۔ نقطۂ نظر
ہر فن کار کے ذہن میں ایک نقطۂ نظر ہوتا ہے جس کی بدولت وہ اپنی تخلیق کو تشکیل دیتا ہے۔ بچھڑے گروہ کی خستہ حالت کو دیکھ کر پریم چند کو دکھ ہوا ان کی خستہ حالت سے عوام کو آشنا کرنے کے لیے ایک کامیاب افسانہ ” کفن” لکھ ڈالا۔ فرد ہر معاملے میں نقطۂ نظر کو پیش رکھتا ہے۔ لکھاری کو اس چیز کا حساس ہونا ضروری ہے کہ مطالعہ اور مشاہدہ اس ضمن میں اہم ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا اپنا کوئی نقطۂ نظر نہ ہو۔ فنکار کو چائیے کہ وہ نقطۂ نظر کو زیادہ نمایاں ہونے سے بچائے رکھے۔ چنانچہ پریم چند نے اپنے افسانے” کفن” میں اپنے نقطۂ نظر کو زیادہ نمایاں نہیں ہونے دیا۔
۴۔ مکالمہ
مکالمہ کرداروں کے درمیان گفتگو کو کہا جاتا ہے۔ اور اس گفتگو سے کرداروں کے ظاہر اور باطن پہلوؤں نظر آتے ہیں۔ مکالمہ بھی افسانے کا ایک اہم جزو ہے۔ کیونکہ اس سے کرداروں کی تخلیق اور تعبیر کا صحیح پتہ چلتا ہے۔ مکالمے کے توسط سے کرداروں کے جذبات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مکالمہ نگار کو چائیے کہ وہ جس عہد اور تہذیب و ثقافت کی بات بیان کر رہا ہے اس عہد اور تہذیب و ثقافت کی بول چال اور تمام باتوں کا خیال رکھے تاکہ قصہ قاری کی آنکھوں کے سامنے اس عہد یا تہذیب و ثقافت کا نقشہ کھینچ کر لے آئے کیونکہ اس طرح کرنے سے کرداروں میں جان آ جاتی ہے اردو افسانے کی دنیا میں پریم چند، علی عباس حسینی، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر ، بیدی اور عصمت چغتائی کے مکالمے کامیاب سمجھے جاتے ہیں۔
۵۔ آغاز و اختتام
افسانے کی ابتدا ایسے ہونی چاہیے کہ فوری طور پر قاری کی توجہ اپنی طرف پھیر لے۔ اور وہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ آگے کیا ہوگا۔ اور جب افسانہ اختتام پذیر ہو تو قاری کے ذہن پر ایک گہرا نقش چھوڑ جائے۔ بعض روسی افسانہ نگاروں کی ایسی کہانیاں ہیں جو ورق پر ختم ہو جانے کے بعد ہی پڑھنے والے کے ذہن میں شروع ہو جاتی ہیں۔ یعنی قاری کے ذہن میں ایک ایسا سوال آتا ہے جس کا جواب وہ آنے والی زندگی میں تلاش کرتا ہے۔
۶۔ اسلوب بیان
افسانے کا طرزِ بیان سے افسانہ یا تو مقبولیت حاصل کرے گا یا غیر مقبولیت ۔ کینوس کے اعتبار سے چونکہ افسانہ چھوٹا ہوتا ہے اس لیے کم سے کم الفاظ میں جامع بات بیان کر دی جاتی ہے۔ یہ اس ٹائم ہو سکتا ہے جب افسانے کا ایک ایک لفظ افسانے کی بڑھوتری میں میں مددگار ثابت ہو۔ عام خیال کیا جاتا ہے کہ غزل کا خیال افسانے کے خیال سے ملتا جلتا ہوتا ہے۔