مختار مسعود 1927ء میں سیال کوٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدا سے لے کر ایم ۔ اے تک تعلیم مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے حاصل کی۔ ان کے والد پروفیسر شیخ عطا الله نے ۲۰ سال مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں اقتصادیات کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ مختار مسعود نے تحریک پاکستان میں ایک طالب علم کارکن کی حیثیت سے حصہ لیا۔ علی گڑھ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے سالہا سال وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد سول سروس آف پاکستان کے لیے منتخب ہوئے ۔ انھوں نے اپنی ملازمت کے دوران میں اعلی ترین سطح پر خدمات انجام دیں۔
مختار مسعود ایک کثیرالمشاغل انسان ہیں۔ ان کی زندگی میں تعلیم، سفر، تحقیق، تصنیف، تقریر ،فنون لطیفے ،نظامت، معیشت، مالیات، قانون سبھی کچھ شامل ہے۔
تحریک پاکستان میں ایک طالب علم کارکن کی حیثیت سے کام کرتے رہنے کی وجہ سے ان کی تحریروں میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی بیداری اور تحریک آزادی کی تفصیل ہے جسے انھوں نے ادبی چاشنی کے ساتھ بڑے مؤثر اور دل نشیں انداز میں لکھا ہے۔ آزادی کے بعد جوش اور جذبے کے سرد ہوجانے پر اجتماعی احسا زیاں کو جنجھوڑا ہے۔
ان کے اسلوب میں بلا کی دلکشی ہے۔ انداز بیان منفرد ہے۔ عبارت نہایت بامحاورہ اور رواں ہے۔ وہ خودی سفر نہیں کرتے بلکہ اپنے قاری کو اپنے تمام جذبوں اور ولولوں کے ساتھ سفر میں شریک رکھتے ہیں۔ وہ سیاسی شعور کے ساتھ ساتھ تاریخ کی بھی گہری آگائی رکھتے ہیں۔ وہ اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ترقی کوشش اور محنتوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جو قومیں اس جذبے کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں، کامیابی ان کا مقدر بنتی ہے اور جب قومیں تن آسان اور جذبوں سے عاری ہو جاتی ہیں تو تاریخ انہیں معاف نہیں کرتی۔ اسے اپنی غلطیوں کا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ان کے سفرنامے شعور اور احساس کے سفر سے عبارت ہیں۔
ان کی تصانیف میں آواز دوست“، ”سفر نمیب“، ”تاریخ کے عینی شاہ اور مغربی پاکستان کی سرزمین، لوح ایام زیادہ مشہور ہیں۔
مختار مسعود نے 14 اپریل 1917ء کو لاہور میں وفات پائی۔