سرسید احمد خان چونکہ سربرآوردہ تعلیمی اور علمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے وہ جہاں کہیں بھی رہے تالیف و تصنیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہیں ہمیشہ مسلمانوں کی بہبود کا خیال تھا یہ تو امر مسلم ہے کہ انہیں ہر قیمت پر مسلمانوں کی بہبود قبول تھی لیکن وہ اس بہود کو جاری و ساری رکھنے کے لئے مغربی آثار اور اطوار کا سہارا لیتے تھے۔
تالیف و تصنیف کے سلسلے کو انہوں نے ملازمت کے دوران میں بھی بڑی شد و مد سے جاری رکھا۔ انہوں نے مراد آباد میں 1859ء میں فارسی کا ایک مدرسہ جاری کیا۔ غازی پور میں 1864ء میں ایک انگریزی مدرسہ جاری کیا۔ ان دونوں مدرسوں کے اجراء اور ارتقاء سے زیادہ اہم ایک کام سرانجام دیا انہوں نے غازی پور میں ایک سائنسی سوسائٹی کا اجرا بھی کیا۔ یہ کارنامہ انہوں نے 1864ء میں سرانجام دیا۔ اس سوسائٹی کا مقصد اور نصب العین کی یہ تھا کہ مغربی علوم کو ہندوستان میں رواج دیں۔ اس مقصد میں سرسید احمد خان کو بہت بڑی کامیالی حاصل ہوئی۔ انہوں نے سوسائٹی کے زیراثر بہت سی انگریزی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرایا۔ مزید برآں انہوں نے ایک اخبار بھی جاری کیا جس کا ایک حصہ اردو میں ہوتا تھا تو دوسرا انگریزی میں ہوتا تھا۔
آغاز کار میں سرسید احمد خان نے تعلیمی میدان میں جو بھی کام کیا اس میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو بھی برابر کے شریک ہوتے تھے اور ہر دو قوموں کے افراد ایک سا فائدہ حاصل کرتے رہے لیکن 1867ء میں ہندوؤں نے بنارس میں اردو کے خلاف تحریک شروع کر دی ۔ ہندوؤں کی اس حرکت سے سرسید احمد خان کا زاویہ نگاہ بدل گیا۔ ان کا خیال تھا کہ ہندو مسلمانوں کے ساتھ علمی کاموں میں شامل نہیں ہونا چاہتے تو وہ ملکی سیاست میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر برابر کا سلوک کب رواء رکھیں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ مسلمان ہندووں سے جدا ہو کر ہی ترقی کر سکتے ہیں لہذا مشترکہ قومیت کا مسئلہ کا لا یخل ہے
ہندوؤں نے اردو کے خلاف تحریک چلانے کے زمانے میں ہی ایک انجمن کی جس کا نام برٹش انڈین ایسوی ایشن تھا۔ اس انجمن کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کی ضروریات اور مفاد عامہ کے بارے میں برطانوی حکومت کے سامنے مشورے پیش کئے جا سکیں۔ ان حالات کے پیش نظر سرسید احمد خان کو یقین محکم ہو چکا تھا کہ قوم کی جملہ خرابیوں کا حل مغربی علوم کی تعلیم احصل کرنے میں ہی ہے۔ ورنہ قوم ترقی کے میدان میں پیچھے رہ جائے گی۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ خور ولایت تشریف لے جائیں اور وہاں کی اوضاع طوار سے مکمل واقفیت حاصل کریں تا کہ قوم کے افراد زیادہ سے زیادہ تعداد میں ان کے نظریات سے متاثر ہوں کیونکہ ان کا خیال ہی نہیں بلکہ یقین تھا کہ مسلمانوں کی پسماندگی کا واحد حل حصول تعلیم ہے۔ انکا زریں مقولہ تھا تعلیم اول اور تعلیم آخر۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے مسلمانوں کو مغربی تعلیم کے حصول کے ضمن میں ادب اور سائنس کی طرف پوری توجہ مبذول کرنے کا مشورہ دیا۔
سر سید احمد خان اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ یکم اپریل 1869ء کو انگلستان جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ انگلستان میں ڈیڑھ سال تک رہے اور اکتوبر 1870ء میں واپس آئے۔ سر سید احمد خان نے انگلستان کے قیام کے دوران میں کیمبرج یونیورسٹی میں اقامتی زندگی اور تعلیمی نظام کا گہرا مطالعہ کیا۔
انگلستان سے واپس آ کر 1870ء میں ایک کمیٹی بنائی جس کا نام "خواستگار ترقی تعلیم مسلمانانِ ہند "تھا جس کا کام یہ تھا کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے اسباب دریافت کرے اور تعلیمی پسماندگی دور کرنے کا علاج بتائے۔ کمیٹی نے درج ذیل نتائج اخذ کیے:
1۔ مسلمان علماء انگریزی تعلیم اور مغربی افکار کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں۔
2۔ مدارس میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔
3. مسلمان انگریزی تعلیم و ادب سے غیر مطمئن ہیں اس لئے وہ سرکاری مدارس میں اپنے بچوں کو نہیں بھیجتے۔
4۔ نئے مدارس میں عربی اور مذہبی تعلیم موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے مسلمان طلباء لا دینیت کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
5. انگریزی مدارس میں مسلمانوں کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا
6۔ مسلمان غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور سرکاری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں اپنے تدریسی مدارس کھولنے کی استطاعت نہیں رکھے۔
7۔ مشنری سکولوں اور کالجوں کے ارادے مسلمانوں کے متعلق بڑے خطرناک حد تک تباہ کن ہیں۔
درج بالا نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے ارکان کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ
(ا) مسلمان اپنے قومی مدارس کے اخراجات خود برداشت کریں ۔
(ب) مسلمانوں کو جدید علوم سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔
(ج) مسلمانوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک کالج کھولنا چاہئے۔
کمیٹی کی رپورٹ پر ممڈن کالج فن کمیٹی قائم ہوئی ۔ مسلمانوں کی اس تجویز کی حکومت نے بڑی تعریف کی اور مدد دینے کا وعدہ کیا۔
سے پہلے علی گڑھ ایم-اے- او ہائی سکول کھولا گیا۔ یہ ہائی سکول مدرستہ العلوم کی جگہ کھولا گیا تھا۔ اس سکول کا نظم ونسق مولوی سمیع اللہ کے سپرد تھا۔ انہوں نے اپنے فرائض بطور احسن سرانجام دیے۔ ایم-اے- او ہائی سکول کا افتتاح سر ولیم میور نے 24 مئی 1875 کو کیا۔
دو سال بعد 8 جنوری 1877ء کو لارڈ لٹن نے ایم اے او کالج کا افتتاح کیا اور اس کے قیام میں روشن خیال مسلمانوں کی لفظی اور معنوی امداد شامل تھی۔
سرسید احمد خان نے مسلمانوں کی مزید ترقی کے لئے 1886ء میں آل انڈیا ممڈن ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی۔ اگر چہ کالج کی حالت تسلی بخش تھی پر بھی ایک کالج پوری تعلیمی ضروریات کے لئے ناکافی تھا۔ مسلمانوں میں عام بیداری پیدا کرنے کے لئے ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ کاج سے بھی زیادہ مفید ثابت ہوئی۔ دور دراز علاقوں کے مسلمان بغرض افادہ کالج میں داخل ہو کر اپنی تعلیمی کمی کو پورا کرتے تھے۔ ایجوکیشنل کانفرنس نے مسلمانوں میں زندگی کے آثار پیدا کر دیئے۔ سرسید احمد خان کی جملہ کوششیں مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے اور مغربی علوم سے شناسائی حاصل کرنے کے لئے وقف تھیں ۔ وہ اپنی کوششوں میں کامیاب رہے۔
امر مسلم ہے کہ ہر ایجاب کے ساتھ سلب کا وجود بھی ہوتا ہے لہذا علی گڑھ تریک کے ایجابی پہلو کے ساتھ ساتھ سلبی پہلو بھی نمایاں ہے۔ مسلمانوں نے مغربیت قبول کر کے بہت کچھ کھویا بھی ہے