بہت سے فلسفیوں نے مختلف اوقات میں ایک مثالی
ریاست کا نقشہ مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ افلاطون کی مثالی جمہوریہ Republic کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ سرتھامس مور نے بھی ( جسے یورپ کی علمی نشات ثانیہ میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے) اپنی کتاب یوٹوپیا میں ایک ایسی ہی مثالی ریاست کا نقشہ کھینچا ہے۔ یوٹوپیا کی اصطلاح بھی اسی کی وضع کی ہوئی ہے۔ یوٹوپیا کے لغوی معنی ہیں کہیں نہیں، گویا یوٹوپیا ایک ایسی مثالی ریاست ہے جو خارج میں کہیں وجود نہیں رکھتی۔ وہ ایک دردمند فلسفی کی تمناؤں کا تخئیلی پیکر ہے۔ اردو میں یوٹوپیا کا ترجمہ جنت ارضی کیا جاتا ہے۔
سر تھامس مور کی تصنیف یوٹوپیا ۱۵۱۸ ء میں لکھی گئی۔ اس میں ایک ملاح رفائیل ہائیتھ لوڈے کا ذکر ہے جو حسن اتفاق سے جنوبی سمندروں میں ایک جزیرہ دریافت کر لیتا ہے۔ جس کا نام یوٹوپیا ہے۔ وطن واپس آ کر یہ ملاح اس جزیرے کے حالات بیان کرتا ہے۔ اس جزیرے میں اشتراکیت کی لگ بھگ وہ شکل مروج ہے جسے افلاطون نے اپنی جمہوریہ میں بیان کیاتھا۔ ہر چیز مشترک ملکیت ہے۔ ذاتی ملکیت کا تصور ختم کر دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ ہر مکان کے مکیں ہر دس سال بعد کسی اور مکان میں منتقل کر دیے جاتے ہیں تا کہ احساس ملکیت جنم نہ لے سکے۔ عورتوں ، مردوں ، شادی شدہ اور غیر شادی شدہ لوگوں کے لیے الگ الگ لباس مقرر ہیں ۔ اوقات کار چھ گھنٹے یومیہ ہیں ۔ درمیان میں کھانے کا وقفہ ہوتا ہے اور چونکہ کوئی شخص بیکار نہیں اس لیے یہ اوقات کار کافی ہیں ۔ لوگ آٹھ گھنٹے سوتے ہیں ۔ عشائیہ کے بعد ایک گھنٹے تفریح کو دیا جاتا ہے۔ خواہش مند حضرات کے لیے صبح کے لیکچروں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہر فارم پر کم از کم چالیس کارکن کام کرتے ہیں ۔ جن کی نگرانی کا کام ایک بوڑھے اور دانا جوڑے کے سپرد ہوتا ہے۔ معاشرہ پدرسری ہے۔ امن کو برقرار رکھنا بنیادی مقصد سمجھا جاتا ہے۔ اگر جنگ ناگزیر ہو جائے لڑنے کے لیے کرائے کے پیشہ ور سپاہی بھرتی کیے جاتے ہیں۔
جنگ کا جواز صرف تین صورتوں میں تسلیم کیا جا تا ہے۔
1.مادر وطن کی حفاظت کے لیے
2۔ کسی حلیف کو جارحیت سے بچانے کے لیے۔
3۔ کسی مظلوم قوم کو ظالمانہ استبداد سے نجات دلانے کے لیے۔
پر فارم پر دو غلام بھی ہوتے ہیں جو شکار کرتے ہیں۔
غلام وہ لوگ ہیں جو سزائے موت کے مستوجب تھے مگر انھوں نے موت کی بجائے غلامی کی زندگی کو ترجیح دی۔ مذاہب کئی ہیں اور مذہبی رواداری عام ہے۔ پادری بھی ہیں۔ انھیں زیادہ دانشمند تو نہیں سمجھا جاتا البتہ انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پادریوں کو کسی قسم کے اختیارات حاصل نہیں۔
فرانسس بیکن نے 1622ء میں دی نیو اطلانطس لکھی۔ یہ فرانسس بیکن کا یوٹوپیا ہے ۔ بیکن کے خالی معاشرے میں تسخیر فطرت، سائنسی تحقیق و تفتیش اور ایجادات و انکشافات کے ذریعے انسانی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تھامس کیمپانیلا نے 1923ء میں شہر آفتاب لکھی ۔ تھامس مور اور فرانسس بیکن کے مثالی معاشروں سے کہیں زیادہ اشتراکی ہے۔ تھامس مور کے یوٹوپیا میں پادری بھی تھے۔ غلامی بھی ایک خاص شکل میں موجود تھی لیکن کی پانیلا کے یوٹوپیا میں استحصال، امارت، مفلسی، ذاتی ملکیت ، غلاموں اور پادریوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہیں ۔ تھامس مور کے یوٹوپیا میں اوقات کار چھ گھنٹے یومیہ تھے ۔ کیمپانیلا کے شہر آفتاب میں اوقات کار صرف چار گھنٹے یومیہ ہیں۔ چونکہ استحصال کی کوئی شکل وہاں موجود نہیں اس لیے تمام صحت مند لوگوں کی چار گھنٹے کی محنت ان کی مثالی خوشحالی کی ضمانت ہے۔ بڑے ادیبوں کی تحریروں میں ان کا یوٹوپیا (ایک مثالی ریاست یا ایک مثالی معاشرے کا تصور ) غیر مرتب شکل میں موجود رہتا ہے۔ کیونکہ یوٹوپیا خیال و خواب کی دنیا کی چیز ہے اور ہماری خار بھی زندگی میں مخالفان عوامل کی بالادستی کے باعث اسے ظہور پذیر ہونے کا موقع نہیں مل سکتا۔ اس لیے بعض اوقات یوٹوپیا کی اصطلاح کسی ادیب یا شاعر کے ایسے مثالی تصورات یا توقعات کے مجموعے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے جسے ہم طنز کے طور پر خیالی ، ناممکن العمل اور حقیقت پسندی کے منافی قرار دینا چاہتے ہیں۔