وحدت

ادب کی دنیا میں وحدت کے معنی ہیں کسی ادب پارے
کے مختلف اجزا کا اپنی ترکیبی حیثیت میں باہم اس طرح مربوط متحد اور منظم ہونا کہ مجموعی طور پر وہ ایک اکائی کا تاثر دے سکے۔

وحدت تاثر

وحدت تاثر اکثر اصناف میں اہمیت رکھتی ہے لیکن مختصر افسانے اور ایکانکی ڈرامے میں وحدت تاثر کو ایک شرط لازم کی حیثیت حاصل ہے۔ وحدت تاثر سے مراد یہ ہے کہ ادب پارہ قاری یا ناظر کے ذہن پر ایک اور صرف ایک تاثر چھوڑے کیونکہ اگر تاثر کئی سمتوں میں بٹ جائے گا تو اس کی شدت اور گہرائی میں کمی واقع ہو جائے گی۔

وحدت ثلاثہ

وحدت ثلاثہ اگرچہ قواعد کے اعتبار سے ایک غلط ترکیب ہے لیکن بالعموم رواج پا گئی ہے۔ بعض حضرات نے اس کی ںجائے وحدت ہائے ثلاثہ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ سید عبداللہ نے اشارات تنقید میں اس اصطلاح کے استعمال سے احتراز کیا ہے اور اس کی بجائے تین وحدتیں‘‘ لکھا ہے ۔ اس اصطلاح سے وہ تین وحدتیں (وحدت عمل، وحدت زمان اور وحدت مکاں) مراد ہیں جن کے بارے میں فرض کیا جاتا تھا کہ ڈرامے کے پلاٹ میں ان کا لحاظ رکھنا ہر ڈرامہ نویس کے لیے ضروری ہے۔ ان وحدتوں کا مفہوم یہ تھا کہ ڈرانے میں ایک واقعہ مکمل شکل میں پیش کیا جائے اور ڈرامے کا عمل صرف ایک مقام اور ایک وقت میں محدود رکھا جائے ۔ وحدت عمل اور وحدت زماں کا ذکر تو بوطیقا میں ملتا ہے، وحدت مکاں ارسطو سے بعد میں منسوب کر دی گئی لیکن خیال رہے کہ شیکسپیئر جیسے بڑے ڈراما نویسوں نے ان وحدتوں کی بھی پروا نہیں کی ۔ ڈیوڈ ڈیشیز کے خیال میں ایسا واحدڈراما جس میں شیکسپیئر نے تین وحدتوں کا لحاظ رکھا۔ وہ دی ٹمپسٹ ہے۔

وحدت زماں

(الف) ڈرانے کا پلاٹ اتنے ہی وقت پر حاوی ہونا چاہیے جتنی دیر میں اسٹیج پر پیش کیا جانا مقصود ہے۔
(ب) دو تین گھنٹے کے ڈرامے میں پیش آنے والے واقعات
زیادہ سے زیادہ بارہ گھنٹے کے واقعات ہونے چاہئیں ۔
(ج) دو تین گھنٹے کے ڈرامے میں پیش آنے والے واقعات
چوبیس گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ تیسں گھنٹے کے واقعات ہونے چاہئیں۔ اکثر نقادوں نے وحدت زماں کا یہی مفہوم مرادلیا ہے۔
(د) آفتاب کی ایک گردش سے ایک سال بھی مرادلیا جاسکتا ہے۔اگرچہ نقادوں نے اس مفہوم سے احتراز کیا ہے۔
ارسطو کے بعد ایک طویل عرصے تک ڈراما نویں سے وحدت مکاں اور وحدت عمل کے ساتھ ساتھ وحدت زماں کی بھی توقع کی جاتی رہی لیکن اول تو وحدت زمان کا مفہوم ہی پوری قطعیت کے ساتھ متعین نہ ہو سکا اور پھر اس سے جو جو مفاہیم مراد لیے گئے وہ سب کے سب ڈراما نویس پر بےجا پابندیاں عائد کرتے تھے۔ اس لیے ڈراما لکھنے والوں نے عمل
وعمدت زمان کی پوری پابندی شاید کسی دور میں بھی نہیں کی۔ بالآخر وحدت مکاں اور وحدت عمل کے ساتھ ساتھ وحدت زماں کو بھی غیرضروری سمجھتے ہوئے نظر انداز کردیا گیا۔

وحدت عمل

ارسطو نے المیہ سے بحث کرتے ہوئے بوطیقا میں
لکھا تھا:
” چونکہ روئیداد ایک ہی عمل کا نقل ہے اس لیے اسے ایک ایسے عمل کی نقل ہونا چاہیے جو واحد اور مکمل ہو۔”

بوطیقا میں ہمیں ایک اور مقام پر یہ عبارت بھی ملتی ہے۔

” شاعر کو اس بات کا بھی خوب لحاظ رکھنا چاہیے کہ ٹریجڈی کی تعمیر رزمیہ نظم کے خاکے پر نہ کرے۔ رزمیہ نظم کے خاکے سے میری مراد ایسی روئیداو ہے جو کئی روئیدادوں پر مشتمل ہو۔”
ڈرامے میں وحدت عمل کا اصول ارسطو کی انہی عبارتوں پر مشتمل ہے۔ گویا ارسطو مصر ہے کہ ٹریجڈی میں صرف ایک واقعہ مکمل صورت میں پیش کیا جانا چاہیے ضمنی داستان یا پلاٹ سے احتراز لازم ہے۔ دراصل ارسطو کے ذہن میں اس اصول کا تصور اپنے عہد کے یونانی سٹیج کی بعض مجبوریوں کے باعث پیدا ہوا ہے۔

یونانی سٹیجوں میں سامنے کا پردہ نہیں ہوتا تھا جو مناظر کی تبدیلی کے لیے ضروری ہوتا تھا اور وہی اداکار شروع سے آخر تک ڈرامے میں اداکاری کرتے تھے۔ یونان میں سٹیج کے ان حالات کا تقاضا بس یہی ہوتا تھا کہ صرف ایک مکمل عمل دکھایا جائے.

گویا یہ ارسطو کے دور کی ایک مجبوری تھی ۔ چنانچہ جدید ڈراما نویسوں نے اس اصول کی پابندی نہیں کی ۔ انھوں نے دوہے پلاٹ تشکیل دیے۔ حتیٰ کہ ٹریجڈی میں ضمنی پلاٹ کے طور پر کوئی طربیہ کہانی بھی شامل کر لی ۔ رفتہ رفتہ وحدت عمل کے مفہوم میں بھی تبدیلی واقع ہوگئی اور یہ سمجھا جانے لگا کہ ٹریجڈی کے پلاٹ میں ضمنی واقعات کا شمول وحدت عمل کے منافی نہیں۔ البتہ پلاٹ کی تعمیر و تشکیل اس سلیقے سے ہونی چاہیے کہ تمام واقعات مل کر ایک وحدت بن جائیں۔

وحدت مکاں

وحدت عمل اور وحدت زماں کا ذکر تو ارسطو کی بوطیقا میں ملتا ہے۔ وحدت مکان کے بارے میں ارسطو نے کچھ نہیں کہا تھا لیکن اگر وحدت عمل اور وحدت زمان کی پابندی کی جائے تو وحدت مکاں کی گنجائش خود بخود نکل آتی ہے۔ دراصل وحدت مکاں بھی وحدت زماں اور
وحدت عمل کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئی۔
چنانچہ وحدت عمل اور وحدت زماں کے ساتھ ساتھ
وحدت مکاں کو بھی ارسطو سے منسوب کر دیا گیا۔ سید عبدالہ لکھتے ہیں:
’’وحدت مکاں سے مراد یہ ہے کہ عمل کا مقام بھی قرین قیاس فاصلوں کے اندر ہو۔”
رہی یہ بات کہ قرین قیاس فاصلہ کیا ہونا چاہے۔ اس پر
اتفاق رائے ممکن نہیں لیکن وحدت مکاں کی شرط کے تحت توقع کی جاتی ہے کہ ڈرامے کے تمام واقعات کا مقام ایک مکان ، ایک محلہ یا زیادہ سے زیادہ ایک شہر تک محدودرہے۔ یہ شرط ڈراما نویس پر ایک بےجا پابندی کی حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ شیکسپیئر نے وحدت زماں اور وحدت عمل کی طرح وحدت مکاں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی۔ وہ ایک ہی ڈرامے میں مختلف شہروں کے بلکہ مختلف ملکوں کے مناظر پیش کر دیتا ہے۔ یوں بھی وحدت مکاں کا اصول اس غلط فہمی پر مبنی تھا کہ انسانی ذہن اس بات پر قادر ہیں کہ وہ ایک ڈرامے میں کچھ واقعات کو ایک مقام پر اور بعض واقعات کو سینکڑوں میل دور کسی دوسرے مقام پر فرض کر سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے