تعارف:
سوانح عمری کسی شخص یا فرد کی گزری زندگی کی ایک داستان ہوتی ہے. بہت سی مشہور شخصیات نے اپنی سوانح عمریاں شائع کروائی ہیں۔ اور کافی مقبولیت بھی حاصل کی ہے۔ . حیات جاوید اور الفاروق اس کی عمدہ مثال ہیں۔ جو کئی دہائیوں کے بعد بھی اسی طرح باذوق لوگوں کی پسندیدہ کتابوں میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے جنرل(ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے اور آرمی کے بڑے بڑے کمانڈروں اور دیگر بڑے سیاسی اور ادیبوں نے اپنی سوانح عمری لکھیں۔ جو بہت بہت مقبول ہوئیں ہوئی کیونکہ عوام معروف شخصیات کے بارے میں جاننا پسند کرتے ہیں.
حفیظ صدیقی اپنی کتاب کشاف تنقیدی اصطلاحات میں لکھتے ہیں کہ سوانح لکھنے کا رواج بہت پرانا ہے۔ فراعنہ
مصر نے اہرام مصر کی اندرونی دیواروں پر جو عبارات کندہ کرائی تھیں انھیں سوانح نگاری کے اولین نمونے قرار دیا جا سکتا ہے لیکن باضابطہ سوانح نگاری کا آغاز بہت بعد میں ہوا۔ دوسری صدی عیسوی کے ایک ادیب پلوٹارک کو اولین سوانح نگار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس نے چھیالیس یونانی اور رومی مشاہیر کے حالات زندگی قلمبند کیے ہیں۔ انگریزی ادبیات میں باسول اور لٹن سٹریچی کی لکھی ہوئی سوانح عمریوں نے اس فن کے نکات و معارف کو عام کیا اور عمرانیات اور نفسیات نے انسانی شخصیت اور کرداروں کو جانچنے کے لیے جو نئے پیمانے وضع کیے ان سے متاثر اور مستفید ہو کر جدید سوانح نگاری ایک باضابطہ فن بن گئی۔
اردو میں مولانا حالی کو باضابطہ سوانح نگاری کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ ان کی سوانحی تصانیف حیات سعدی ، یادگار غالب اور حیات جاوید ہیں ۔ مولانا شبلی نعمانی نے بھی سوانح نگاری سے دلچسپی لی ہے۔ ان کی سوانحی تصانیف میں المامون، الفاروق، الغزالی ، سوانح مولانا روم ، سیرت النعمان اور سیرت النبی شامل ہیں ۔ حیات اور لائف کی اصطلاحات بھی سوانح عمری کے لیے استعمال ہوتی ہیں ۔
سوانح عمری کے لیے ضروری امور:
سوانح عمری کے مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا ضروری ہے
1. شخصیت کا انتخاب
سوانح نگار کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جس کی سوانح لکھنے جا رہا ہے وہ اس کے قابل بھی ہے کہ نہیں۔ سوانح نگار ایسی افراد کا انتخاب کرے جو مشہور ہوں اور ان کی حیات زندگی میں نشیب و فراز آتے رہے ہوں
2. زندگی سے واقفیت
سوانح نگار کو چائیے کہ جس کی وہ سوانح لکھ رہا ہے اس کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو سے آشنا ہو ۔ سوانح میں اس دور کی سیاسی، معاشی ، معاشرتی حالات و واقعات کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس دور کے کشمکش کے اظہار کو اچھی طرح بیان کرے۔ کیونکہ اس کے بغیر سوانح عمری نامکمل ہے
3. واقعات کا انتخاب
سوانح نگار کو چائیے کہ وہ اس کے کے لیے ایسے واقعات کا انتخاب کرے جو شخص کی ذات اور اس کے کردار پر مشتمل ہوں۔ چاہے وہ واقعات غیر ضروری ہی کیوں نہ ہوں۔ زندگی واقعات کا ایک خزینہ ہے۔ اس لیے ایسے واقعات کا انتخاب کیا جائے جو فرد کی ذات کے متعلق ہوں
4. مواد کی فراہمی
کسی فرد کے بارے میں کس کس جگہ سے مواد مل سکتا ہے ۔ یا کن ذرائع سے معلومات اخذ ہو سکتی ہیں۔ ان کا ضرور پتہ ہونا چاہیئے۔
5. حسن ترتیب
فرد کی حیات کے متعلق مکمل طور پر مواد اکٹھا کرنا چاہیے یہ مواد تحقیق سے گزرا ہونا چاہیے اور تحقیق سے گزارنے کے بعد اسے اس طرح ترتیب سے پیش کرنا چاہیے کہ فرد کی پیدائش سے موت تک کے سب واقعات اور اس کے کار ہائے نمایاں آنکھوں کے سامنے آ جائیں سوانح عمری میں شخصیت، فرد ، تاریخ اور ادبی چاشنی کا امتزاج کو برقرار رکھا جائے۔ اس کی کمی سے سوانح عمری پر اثر ہو سکتا ہے۔ سوانح میں فرد کی ذہنی کیفیت کو جانچنا اور اس کی شخصیت کے اتار چڑھاؤ کو قابو میں رکھنا سوانح نگار کا اہم فرض ہے۔ پھر ان الجھنوں کو ایمانداری اور بے خوفی سے بیان کرنا ضروری ہے۔ یہی حسن ترتیب سوانح کی اساس ہے۔
6. منصفانہ انداز
سوانح نگار کو چائیے کہ زندگی کے تمام پہلوؤں سے بخوبی آگاہ ہو کر دیانت داری سے روشنی ڈالے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی پہلو مخفی رہ جائے۔ یا اس کے اوصاف کو کم کر کے عیبوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے
7. اسلوب
ایک اچھے سوانح نگار کو چائیے کہ وہ زبان و اسلوب کا ضرور خیال رکھے۔ کیونکہ زبان اور اسلوب ہی سے سوانح کو ادب کا مرتبہ ملتا ہے۔
8. جذبہ اثر پزیری
سوانح نگاری میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سوانح عمری کے کیا کیا فوائد ہیں۔ اور کیا کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ سوانح سے ذریعے ہی ہمیں عظیم شخصیات، سیاست دانوں، سائنس دانوں، فلاسفروں، مفکروں، رہنماؤں اور سماجی اور معاشی کارکنوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ جن کے احسانات اج ہمیں یاد ہیں۔ سوانح کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ زندگی کو دوسرے کامیاب لوگوں کی طرح کیسے کامیاب کر سکتے ہیں۔